نومبر کس طرح بیتا ۔ بتا دوں تو قیامت ہو
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillسسکتے راز سے پردہ ہٹا دوں تو قیامت ہو
نومبرکس طرح بیتا بتا دوں تو قیامت ہو
ابھی تم جن کو پڑھ پڑھ کر الجھتی ہو مقدر سے
وہ تارے تیری پلکوں پر سجا دوں تو قیامت ہو
کئ صدیوں سے پھرتی ہے جو ان آنکھوں میں ویرانی
اسے چبھتے حقائق سے ملا دوں تو قیامت ہو
کسی کی آرزو کیا کی زمانہ زہر لے آیا
اسے گر آرزو کے گر بتا دوں تو قیامت ہو
مجھے یہ پوچھتے ہو روز جو۔ اس بات کی بابت
میں اب اثبات میں سر کو ہلا دوں تو قیامت ہو
اسی تحفے سے قائم ہے جہاں کا کار خانہ بھی
تمہاری آس کو دل سے مٹا دوں تو قیامت ہو
جو میں نے وقت کے ہاتھوں سے پی ہے تیری فرقت میں
تجھے اک گھونٹ ہی گر میں پلا دوں تو قیامت ہو
تمہاری نرم بانہوں میں اساس زندگی رکھ کر
وہ ساری تلخیاں اک دم بھلا دوں تو قیامت ہو
جنہیں جذبات کے گھیرے میں کب سے روک رکھا ہے
وہ آنسو آج آنکھوں سے گرا دوں تو قیامت ہو
دل بیتاب میں گردش لہو کی اسکے ہونے سے
محبت کو اگر کچھ دن سلا دوں تو قیامت ہو
ابھی الفاظ کی ہیئت سے وحشت ہونے لگتی ہے
اگر ان کے مطالب بھی بتا دوں تو قیامت ہو
غنیمت جان کہ مجھ سے ہے قائم خواب سا عالم
اگر منظر سے میں خود کو ہٹا دوں تو قیامت ہو
جہاں واعظ جبین فخر کو ہر دم پٹختا ہے
وہاں میں دو گھڑی ماتھا لگا دوں تو قیامت ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






