نگاہ شوق کو کب تیرا انتطار نہیں
تجھے اے دوست مگر اب بھی اعتبار نہیں
زمانے بھر کے الم تیرا غم بھلا نہ سکے
گماں ہے تجھ کو مجھے تیرے غم سے پیار نہیں
تری آغوش میں آکر بھی میں نے دیکھ لیا
ملا یہاں بھی ذرا سا مجھے قرار نہیں
بہار آنے سے بدلی نہیں چمن کی فضا
شجر اداس ہیں شاخوں پہ برگ و بار نہیں
کسی کو کیوں ہو مرے حال کی خبر کوئی
لبوں پہ آہ نہیں آنکھ اشکبار نہین
وہ کارواں تو کبھی کا گزر گیا زاہد
کہ دور تک کہیں اٹھتا ہوا غبار نہیں