قبول کا ہی صلہ سمجھ کر
کہ لب پہ کوئی دعا سمجھ کر
عزاب جاں کا صلہ نہ مانگو
ابھی تمہیں تجربہ سمجھ کر
اداس چہرے سوال آنکھیں
یہ میرا شہرِ وفا سمجھ کر
یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں
چراغ ہے اک ہوا سمجھ کر
جدا ہے چہرہ بدن جدا ہے
لہو کی رنگت جدا سمجھ کر
نہیں ہے رخ پر حجاب باقی
نگاہ میں بھی حیا سمجھ کر
کہیں بھی سب کچھ بھلا نہیں ہے
کہیں بھی سب کچھ برا سمجھ کر
ہے کون ملزم ہے کون مجرم؟
کسی سے اب کچھ چھپا سمجھ کر
نظر ہے اپنی خیال اپنا
مگر یہ ہی فیصلہ سمجھ کر
گمان ان کا یہ کہہ رہا ہے
کہ اس کو شاہد پتا سمجھ کر
کوئی تو لمحہ سکون دے دے
یہ زندگی ہے سزا سمجھ کر
کوئی تو وشمہ سکوں کا پل ہو
یہ زندگی ہے سزا سمجھ کر