نگاہوں میں ان کی جو ہم دیکھتے ہیں
بشر میں خدائی کو ضم دیکھتے ہیں
میاں دل میں ان کے تو کچھ چل رہا ہے
وے ہم کو جو یوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
انہیں خلد سے تیری کیا لینا دینا
زمیں پر جو حورِ ارم دیکھتے ہیں
جسے سجدہ کرنے کو دل ہی نہ چاہے
وہ کاہے کو ایسا صنم دیکھتے ہیں
وہ کہتے ہیں وللہ یہ کیا ہو گیا ہے
ذرا بھی جو آنکھوں کو نم دیکھتے ہیں
کرم ہے خدا کا کرم ہے خدا کا
کہ بچپن سے گھر میں علم دیکھتے ہیں
قضا سے فقیروں کو ہو خوف کیسا
ازل سے جو راہِ عدم دیکھتے ہیں
تو کاہے کو ملنے نہیں آتا مجھ سے
رقی تیرے نقشِ قدم دیکھتے ہیں