نگہ ہائے مخمورِ خلوت نشیں
زہے آں نصیبِ منِ کمتریں
سرِ رہ گذر جب ملے تھے کہیں
زہے آں نصیبِ منِ کمتریں
وہ زلفوں کے پیچوں میں پھنسنا مرا
وہ رخسارِ گل صندلیں عنبریں
وہ بانہوں میں لینا ہر اک پل مجھے
مجھے خود نہ آئے ہے اب تک یقیں
ہر اک شام رنگیں بنانا ترا
ہر اک صبح تجھ سے ہوئی تھی حسیں
شکستہ سی تحریر لب پر ترے
خوشا لوحِ محفوظ ماہِ جبیں
وہ تارِ نفس ہائے لرزاں قدم
کہ ہو ہفت اقلیم زیرِ نگیں
وہ آواز بربط سے نے کا ملاپ
ہو ناہید سورج کے تھوڑا قریں
یہ ہیں، اور بھی کچھ ہیں مضمونِ شوق
کہے ہر ادا پر منیر آفریں