نہ تم برے تھے نہ ہم برے
پھر کيوں نہ چاہتوں کے سلسلے جڑے
جب راستے تھے ہرے بھرے
پھر کيوں ان پہ خاک اڑے
جب موسموں کے رنگ تھے کھلے کھلے
پھر کيوں جدائيوں کے موسم ملے ملے
عہد و پيماں تھے اسکے بھلے بھلے
پھر کيوں غموں کے دور چلے چلے
اسکی عادت ہے ستم کرے کرے
وہ خوش ہے تو ہم بھی نہ ملے ملے