نہ جانے کون سے عالم ميں اس کو ديکھا تھا
تمام عمر وہ عالم رہا ہے آنکھوں ميں
کل اس کے ساتھ ہی سب راستے روانہ ہوئے
ميں آج گھر سے نکلتا تو کس کے گھر جاتا
ہر صبح سب سے پوچھتے پھرتے ہيں ہم کہ آج
بندے ہيں کون؟ کس کو خدا مانتے ہيں لوگ
ميں يہ کہتا ہو کہ مجھ سا نہيں تنہا کوئی
آپ چاہيں تو ميری بات ميں ترميم کرليں
ميرا ضمير بہت ہے مجھے سزا کيلیے
تو دوست ہے تو نصيحت نہ کر خدا کيلیے
کوئی گلہ کوئی شکوہ ذرا رہے تم سے
يہ آرزو ہے کہ اک سلسلہ رہے تم سے
کيا قيامت ہے مجھے حوصلہ ضبط ہے شاذ
کيا غضب ہے کہ تیرے درد کا اندازہ ہے
يہ جہاں ہے مجلس بے اماں کوئی سانس لے تو بھلا کہاں
تیرا حسن آگيا درمياں يہی زندگی کا جواز ہے