نہ جھانکو آج دریچوں سے دروازہ کھلا ہے آجاؤ
کبھی استقبال جو کرتا تھا بیمار پڑا ہے آجاؤ
ماتھے پہ پسینہ یادوں کا دل میں ہے بلا کی بے چینی
دیدار کی حسرت آنکھوں میں ہونٹوں پہ دعا ہے آجاؤ
ہاتھوں کی لکیریں نظروں کو کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں
کچھ راستہ برج ستاروں کا تبدیل ہوا ہے آجاؤ
ہاں تم نے کہا تھا جب جانا کوئی چیز نشانی لے جانا
ساحل پہ سفینہ سانسوں کا تیار کھڑا ہے آجاؤ
کافر ہے جو آپ کے وعدے پر شاکر نہ یقین کرے لیکن
احساس کے ہاں امیدوں کا دم ٹوٹ رہا ہے آجاؤ