پیتے پیتے مر گئے نہ ملی غم یار سے فرصت
رہا پھر بھی دل میں نہ ملی مجھے پیار سے فرصت
عہدِ الفت توڑ نہیں یہ ہے کورا ظرف ہمدم
میں نے روکا تو اُسے نہ ملی انکار سے فرصت
رنگ آج بھی ہیں ہر سو بہاروں کے دلکش
گلِ جستجو تھی کہ نہ ملی مجھے خار سے فرصت
لوگو نہ ماتم کرو دلِ آنگن میں نہیں ویرانہ
مجھ کو تو ملی ہی نہیں انتظار سے فرصت
میری ولایت پہ گماں ہے میری تربت کو خالد
میری چاہتوں میں کمی نہ ملی پیار سے فرصت