نہ میرے بعد مرے انتظار میں رہنا
بس اپنی مستی اور اپنے خمار میں رہنا
عجیب سوچ کا مالک ہے یار میرا بھی
قرار لے کے ہے کہتا قرار میں رہنا
تمام شہر سے پتھر اٹھاۓ نفرت کے
نہ راس آیا ہمیں شہر یار میں رہنا
تمام عمر جو قدموں کی خاک چومی ہے
مجھے یوں اچھا لگا ریگزار میں رہنا
جو آج پانی میں بچوں کو کھیلتے دیکھا
تو یاد آیا وہ موج بہار میں رہنا
ہیں آج وہ بھی تو مٹی کو اوڑھ کر سوۓ
جنہیں عذاب تھا گرد و غبار میں رہنا
کہ میرے پاس بچی ہے بس ایک خوداری
نہ مجھ سے چھین مرا اختیار میں رہنا
زمانہ جتنے بھی کرتا رہا ستم باقرؔ
نہ ہم نے چھوڑا وفا کے مدار میں رہنا