نہ نہیں کرتے ہم
Poet: سعدیہٓ اعجاز By: Sadia Ijaz Hussain, Lahore,University oF Educationدکھ کا پرچار کریں ؟ نہ نہیں کرتے ہم
آنسوؤں میں بات کریں ؟ نہ نہیں کرتے ہم
دل کا جو بھی ہو! جی جاۓ، یا مر جاۓ
محفل میں اعلان کریں ؟ نہ نہیں کرتے ہم
یہ جو آشیانہ ہے دل کی ناقص منڈی میں
اِسکو بحال کریں ؟ نہ نہیں کرتے ہم
لفظوں میں بغاوت جس قدر اٹھ چکی ہے
اب ستم سے گریزاں کریں؟ نہ نہیں کرتے ہم
کچھ کھوکھلی سی محفل ہے کچھ قہقہوں میں آفسردگی ہے
حالت سے اسے عیاں کریں ؟ نہ نہیں کرتے ہم
پھولوں میں پتھر بن گۓ شیشیے کے کنکر بن گۓ
اب ہواؤں کے ساتھ چلیں؟ نہ نہیں چلتے ہم
میدانوں میں آگ اٹھی ہے بنجر زمین کی زبان جلی ہے
اب پانی ڈال کر اسے بے زبان کریں؟ نہ نہیں کرتے ہم
بارش کے قطروں کا دکھڑا کس نے سنا ہے ؟
اب بارش کے برسنے پر سوال کریں ؟نہ نہیں کرتے ہم
دھوپ جلی اور اس قدر کہ آنکھوں میں آتش ہو گی
اب دھوپ کی عالی درپن پر ہم انگاروں سے وار کریں؟ نہ نہیں کرتے ہم
جو بیچ دفن بڑے آرام سے مقتل میں رہے
ان کو نکال کر ہم بے آرام کریں ؟نہ نہیں کرتے ہم ۔
جگر کو پاش ، لفظوں کو سفاک کس نے کیا؟
یہ سوال سعدیہّ اس جہاں سے کرۓ؟ نہ نہیں کرتے ہم
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






