نہ پوچھ ہے کیسی میرے یار کی صورت؟
بس چاند سے ملتی ہے میرے دلدار کی صورت
جب سے سنا ہے ،ہے وہ آنے والا
بدل گئی ہے گھر بار کی صورت
جب سے ہوا ہے اس کا آنا جانا
ہے دیکھنے والی اغیار کی صورت
اک تیری خاطر ہوا دشمن زمانہ
آنکھوں میں چبھتا ہوں خار کی صورت
وہی سوچوں کا محور ،وہی یادوں کا مرکز
گرد اس کے میں گھوموں پرکار کی صورت
اب ملنا کجا دیکھنا بھی نہیں ممکن رہا
اغیار آگئے درمیاں دیوار کی صورت
تھا کل بھی اکیلا ہے آج بھی تنہا
نواز آئے نظر بیمار کی صورت