نہ کلاہ کی ہے چاہت نہ تو تاج ہی عطا ہو
ملے در کی خاک تیری یہی میرا مدعا ہو
کوئ بات ہو بھی جائے کبھی تم کو نہ وہ بھائے
تو ملیں کبھی دوبارہ نہ کسی کا کچھ گلہ ہو
یہ رہی ہے اپنی حسرت کہ سدا وفا کریں گے
نہ تو بے وفا ئی سیکھی نہ تو اس سے واسطہ ہو
کبھی ٹھیس لگ بھی جائے کبھی ٹوٹے آئینہ ہی
تو کبھی نہ لب کشائی یہی تسلیم و رضا ہو
جو عزیز پھول ہی ہو تو ہو کانٹوں سے نباہ بھی
ہو چمن کی اس سے زینت یہی اپنا مقتضا ہو
کبھی دیکھو یہ پرندے جو فضاؤں میں ہیں اڑتے
انہیں کون ہے جو تھاما تو اسی کی بس ثنا ہو
یہ جو قیمتی ہیں باتیں یہی اثر نےتو سیکھیں
جو بھلا کرے بھلا ہو جو برا کرے برا ہو