نہ ہو رنجیدہ اتنے کہ ہم بے صبر ہو نہ جائیں
اِن مایوس چہروں کا کوئی اثر ہو نہ جائیں
ابھی تو آنکھوں میں اشک ٹھہر چکے ہیں
تجاوز سے سہی، مسکراؤ کہ ابر ہو نہ جائیں
لوگ قائم مقام کو بھی اپنی قدرت سمجھتے ہیں
ہم کچھ دیر سنگ چلے بھی اَنکر ہو نہ جائیں
دکھ کی بوندیں برساؤ مگر تغافل نہ کرو
ایسا نہ ہو کہ قطرہ قطرہ سمندر ہو نہ جائیں
اپنے چہرے کا جلاؤ چراغ کہ راہیں ڈھونڈلیں
کھوکر ان اندھیروں میں کہیں بدر ہو نہ جائیں
اپنی حیات کو اپنی دھن میں لاؤ سنتوشؔ
کبھی اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو نہ جائیں