نہ سوال کر نہ جواب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
نہ یوں غلطیوں پہ نقاب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
میرے دل کی ساری وہ سسکیاں
کیوں تیری سماعت نہ پا سکی
کروں اشک اب کہاں درج میں
مجھے غم کی کوئ کتاب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
وہ جو لمحے دوریوں میں جیے
وہ جو اشک تنہا تھے پیے
تجھ سے ہے بس فریاد یہ
مجھے کچھ تو انکا ثواب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
میرے چھلنی تن پہ جو زخم ہیں
وہ تیرے درد مجھ پہ رقم ہیں
جو ڈھانپ لے میری روح کو
مجھے کوئ ایسا حجاب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
مجھے روک لےمجھے ٹوک لے
چاہے میری جاں مجھے نوچ لے
میں تو بس تیری جاگیر ہوں
مجھے اپنا کوئ خطاب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
میں جل چکا تیری راہ میں
تو دیکھ غم میری آہ میں
اب حال پر میرے رحم کر
مجھے اب نہ کوئ بھی خواب دے
مجھے آج بس تو حساب دے
نہ یوں غلطیوں پہ نقاب دے