افق کی سرخیوں میں ڈو بے ھوئے ستاروں سے
کبھی تم بھی نکل آتے زمانے کے حصاروں سے
محبت ڈھونڈتی پھرتی ھے اپنی کھوئی ھوئی منزل
مگر بچنا بہت مشکل ھے اپنے ھی شراروں سے
کبھی بے بس تڑپنا ھے کہیں بے زور رھنا ھے
نبرد آزما ھے یہ جیون اپنے شہ سواروں سے
کوئی اک برس کا زکر ھو تو عرض کر دیں گے
یہاں تاریخ مرتب ھے کھوئی ھوئ بہاروں سے
ناصیح نے نصیت کی کہ کچھ کر دیکھاؤ الفت میں
آبلہ پا تو سب ھی نکلتے ھیں ریگزاروں سے
وہ حسن کا جوبن تھا کہ جلوہ گر ھوئے ایسے
نہا کر اک پری نکلی تھی جیسے آبشاروں سے
جنون وقت نے کس کو کہاں سے کھو دیا دیکھو
چل پائیں گے اور کتنا ھم اوروں کے سہاروں سے
خلقت امڈ آئی کے دیکھیں مجنوں کی ھئیت کو
ھم باتیں کر رھے تھے کل اپنے گھر کی دیواروں سے
بہت تگ و دد میں عارف یوں ھلکان بیٹھے ھیں
بہت محدود ھے دنیا مگر لا حاصل کناروں سے