نہیں رسوائیوں میں کب تمھارا نام لیتا تھا
ہم اپنے سر محبت میں ہر ایک الزام پڑتا تھا
یہ جگنو جب لٹائیں روشنی تاریک راہوں میں
اجالے چھوڑ کر اپنے انھیں سب تھام دیتا تھا
تصور میں تمھارے ہم نے دیکھا ہے گلابوں کو
کہیں ہو ذکر پھولوں کا تمھارا نام لکھتا تھا
زباں سے کہہ نہ پائے تم تو کوئی بات دل والی
چلو ان بولتی آنکھوں سے کچھ پیغام ملتا تھا
قیامت کو حسیں پاتے ہیں ان کو دیکھ کر اکثر
وہ زلفوں کو بکھیریں ہم جگر کو تھام لیتا تھا
اگرچہ وصل کی گھڑیوں کی حسرت ہے مری محبوب
جنوں اور عشق میں بھی ضبط سے وہ کام کرتا تھا
فقط عاشق ہی رو رو کے خدا کا نام لیتے ہیں
کوئی یوں یاد کرتا ہے نہ اشکوں کو بہاتا تھا
ہوئے رنجور تو شعروں میں خود کو کھو دیا وشمہ
غموں سے لوگ گھبرا کر تو اکثر جام پیتا تھا