بڑا شور ہے میرے شہر میں نیا سال ہے
ہاں مگر مرا انہی لوگوں سے یہ سوال ہے
کہ یہ کیسے ہے نیا سال کیا ہے نیا یہاں
پریشانیاں ، وہ مصیبتیں وہی غربتیں
اسی طرح سے میرے شہر میں ہیں اٹی ہوئی
اسی طرح بچوں کا خون بہتا ہے آج بھی
اسی طرح ماؤں کی گود اجڑتی ہے آج بھی
جو مکان کچے تھے کچے ہیں نہ بدل سکے
سبھی لوگ ویسے کے ویسے ہیں نہ بدل سکے
اسی طرح پہلے سے فرقے ہیں نہ بدل سکے
ہے دلوں میں ویسی منافقت وہ جو پہلے تھی
وہی تلخ لہجے ہیں آج تک نہ بدل سکے
ہوۓ ہاتھ پیلے غریب کی کسی بیٹی کے
نہ غریب بیٹے کے سر پہ سہرا سجا سکا
وہی پہلے ارماں دلوں میں ویسے کے ویسے ہیں
ارے لوگو کوئ تو مثل دو نۓ سال کی
اسی طرح لوگوں کا خون چوستا ہے امیر
وہی پہلے سا تو غریب کا برا حال ہے
وہ جو غمزدہ تھا غموں سے ویسے نڈھال ہے
میں یہ کیسے مان لوں شہر میں نیا سال ہے