وابستہ تیری سوچ ہے ایسے جنوں کے ساتھ
جیسے رگوں میں دوڑے ترا درد خوں کے ساتھ
ایسے ترا خیال لبادہ ہُوا مرا
لپٹی ہو بیل جیسے یقیں کے ستوں کے ساتھ
اوڑھے ہوئے ہوں تیرے تصور کی شال یُوں
جیسے مگن فقیر ہو جذبِ دروں کے ساتھ
دل مطمئن ہے تیری رفاقت کی دین سے
ورنہ کسے قرار ہو حالِ زبوں کے ساتھ
جاں سے بھی ہے عزیز مجھے ربطِ باہمی
رکھنا ہے رابطہ مجھے ضبطِ فزوں کے ساتھ
میری غزل میں سحۡر کی لذت کبھی نہ تھی
جانِ غزل نے حرف دیے ہیں فسوں کیساتھ
احساس میرے دل کو ترا جگمگائے یُوں
شبنم ہو رُوئے وَرۡد پے جیسے سکوں کے ساتھ