واسطے صنم سنورنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
وفاؤں میں نکھرنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
عشق و محبت میں زندگی جینا عام سی بات
عشق و محبت میں مرنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
اپنے تحفظ کے لئے جنگ کرتے رہتے ہیں ہم
کسی کیلئے لڑنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
جھیل و ساگر میں لاکھ آئے سکون بھیگ کر
چشمِ صنم اُترنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
زخمِ ہجراں ہوں اُس پہ مرہم لگائیں وصال والے
اُن زخموں کے بھرنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
حاکمِ لب پہ حکمِ سزا ، عاشقِ لب پہ مسکانِ وفا
ہائے ! پھر سولی چڑھنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے
نہالؔ جی عشق کے کھیل میں جیتنا غنیمت سمجھو
مگر اِس میں ہرنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے