واپس نہ آئے پھول سے جسموں کو چیر کے
جھوٹے تھے کتنے ربط کمانوں سے تیر کے
کھڑکی میں طشت تھامے ہوئے تھا کسی کا ہاتھ
ٹوٹے پڑے تھے کاسے گلی میں فقیر کے
کٹ جائے خیر ہی سے نیابت کا مرحلہ
شہزادگاں سے جلتے ہیں بیٹے وزیر کے
سوچو تو بے جواز تھیں کھیڑوں سے نفرتیں
کیدو نے سارے خواب بکھیرے تھے ہیر کے
کاغذ پہ ثبت کوئی تہ ایسا پیام تھا
دشمن نے پاؤں کاٹ دئے ہیں سفیر کے