وحشتیں بڑھتی گئیں چاک گریباں اک روز
تیری گلیوں میں یوں اک شخص پریشاں اک روز
اس سے امید وفا سادہ دلی تھی میری
ایسی امید پہ میں کتنی پشیماں اک روز
چاند نکلے گا مگر اس کے ہی آنگن کے لیے
میرے گھر میں کبھی جگنو بھی نہ مہماں اک روز
میرے یاران چمن مجھ کو قفس میں نہ ملے
میرا ہر دوست برے وقت میں انجاں اک روز
سارے ہی شہر میں شہرت بھی ہے رسوائی بھی
تیرا ہی نام مرے نام کی پہچاں اک روز
جس کو اپنوں نے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا
زندگی میں اسے ہنسنا کبھی آساں اک روز
عشق کرنے کی حماقت نہیں کرنا وشمہ
اس کا انجام فقط آہ و پشیماں اک روز