روح کے رابطوں کی بات خدا لگتی ہے
ورنہ میں کون تیرا ،تو میری کیا لگتی ہے
وہ جو باب قبولیت سے لپٹ کر روئی
تیرے احساس میں جینے کی دعا لگتی ہے
کرچیاں سینے میں چبھتی ہیں حسین لمحوں کی
زندگی ! تو میری چاہت کی سزا لگتی ہے
تیری آنکھوں کے سمندر پہ کشتیاں قرباں
ڈوب جانے میں ہی اب انکی بقا لگتی ہے
یوں رخ یار پہ آتے ہیں رنگ حرکت میں
ہر کہی بات مجھے گویا خطا لگتی ہے
آئینہ ٹوٹ گرا ہے جو تیرے ہاتھوں سے
اسکے پیچھے بھی کوئی تیری ادا لگتی ہے
تھام کر رکھو میری جان سوچ کا آنچل
میرے جذبات کے شعلوں کو ہوا لگتی ہے
میرے الفاظ کو سنتے ہی زمانہ بولا
“کسی فرہاد کے تیشے کی صدا لگتی ہے“