یہ گزری اپنی زندگی اجڑے دیار میں
میں کیا کروں کہ کچھ نہیں جب اختیار میں
آ دیکھ آ کے تو بھی کبھی میرا بت کدہ
تیرے بغیر کچھ نہیں دل کے مزار میں
تو نے پلٹ کے دیکھا نہ ہی زندگی نے پھر
میرا جہان لٹ گیا ہے جب سے پیار میں
پھیلے ہیں اس قدر تری یادوں کے سلسلے
مت چھیڑ مجھ کو آج کہ میں ہوں خمار میں
اس کو ہے کیا پتہ کہ خزائیں بھی امر ہیں
آیا ہے ملنے آج جو جشنِ بہار میں
وشمہ تو چھین لے مری اک بار زندگی
ہوتا ہے مجھ کو درد ذرا بار بار میں