رستوں سے شناسائی نہ منزل کی طلب ہے
ہاں جس میں محبت ہو اسی دل کی طلب ہے
مجھ کو نہ ڈبوئے گا مرا چاہنے والا
میں ایک سفینہ جسے ساحل کی طلب ہے
مجھ کو نہ سمر قند و بخارا کی ہوس ہے
مجھ کو ترے رخسار کے اس تل کی طلب ہے
جس شخص کے ہر سنگ کا بس میں ہی ہدف ہوں
وشمہ مجھے اس شخص کے ہی دل کی طلب ہے