کوئی خواب ہے نہ خیال ہے یہ ملال ہے
کوئی ہجر ہے نہ وصال ہے یہ ملال ہے
کوئی چاؤ ہے نہ لگاؤ ہے نہ بناؤ ہے
نہ جواب ہے نہ سوال ہے یہ ملال ہے
کوئی رنگ ہے نہ ترنگ ہے نہ اُمنگ ہے
نہ وہ ذوق و شوق بحال ہے یہ ملال ہے
نہ وہ خال و خد نہ کِسی مِیں تُم سی ادا کوئی
نہ تُمھاری کوئی مثال ہے ......یہ ملال ہے
وہ ہی روز و شب وہی صبح و شام بُجھے بُجھے
وہی گردشِ ماہ و سال ہے. ......یہ ملال ہے
یہاں حُسن اب لبِ بام ہے سرِعام ہے
سرِ راہ رقصِ جمال ہے. ...یہ ملال ہے
یہاں دُشمنی یہاں نفرتیں ہیں عروج پر
یہاں چاہتوں پہ زوال ہے. ..یہ ملال ہے
یہاں قدرداں نہیں کوئی خلق و خلوص کا
یہاں حُرمتِ زر و مال ہے.....یہ ملال ہے
یہاں مست ہیں سبھی اپنے عیش و نشاط مِیں
کِسے غم زدوں کا خیال ہے. ......یہ ملال ہے
فقط اپنے حال پہ دِل گَرفتہ تو ہم نہیں
یہ جو خلقِ شہر نِڈھال ہے....یہ ملال ہے