وعدوں پہ اب کسی کے نہ کرنا تو اعتبار
دھوکے دل ناداں تجھے ملتے ہیں بار بار
اک بار جو اجڑتا ہے ہجر و فراق سے
برسوں پھر اس چمن میں آتی نہیں بہار
نہر فرات پر پڑے پیاسے کئی رہے۔۔
برسات میں سلگتے دیکھے ہیں لالہ زار
آ جائے ایک بار جو الفت کے دام میں
رہتا نہیں کسی کا بھی پھر دل پہ اختیار
رکھے ہوئے ہیں غم کو چھپا کر نشاط میں
ایسے بھی اہل دل یہاں پھرتے ہیں بیشمار
بیٹھے ہوئے ہو چھوڑ کر کیوں بام و در کھلے
زریں کس کا آج بھی کرتے ہو انتظار