تو نے وعدہ کیا خوب نبھایا ملاقات کا
کچھ پل جو گزارا تھا اک حسین رات کا
میں نہ بھول سکوں گا اس شام کو
منہ جب تو نے لگایا تھا اس جام کو
وہ مچل کے پھر میرے بازؤوں پہ گرنا
میرے سینے پہ وہ اپنے سر کو رکھنا
تیرا ہاتھ میرے سینے پہ جو رینگا تھا
میرے لبوں کو پیار سے تو نے سیجا تھا
اک اک ادا سے چھلکتی تیری مستی تھی
میرے گلے میں باہوں کو جب تو کستی تھی
تو نے کر دیا میرے انگ انگ کو جل تھل
مچا دی میرے جزبوں میں اک نئی ہل چل
نہ اترے گا کبھی نشہ تیرے پیار کا
یاد آتا رہے گا وہ لمحہ تیرے خمار کا
جاوید کی زندگی میں طوفان تو نے لایا
جیون کے رنگوں کو میرے بدن میں سمایا