وعدے وفا کے اور قرینے جفا کے یوں
کیوں کر بدل گئے وہ نگاہیں ملا کے یوں
پہلو میں اب پلٹ کے نہ آئے گا دل مرا
انداز لے اڑے ہیں کسی دلربا کے یوں
مطلب یہ ہے کہ اور بھی حیراں ہو چشم شوق
پردے میں چھپ گیا ہے کوئی مسکرا کے یوں
گیسوئے یار چھو کے گلستاں میں آئی ہے
مہکے ہوئے نہ تھے کبھی جھونکے صبا کے یوں
جیسے کہ میں غریب ، کوئی آدمی نہیں
احباب دور دور ہیں دامن بچا کے یوں
ہم کو بلایا، پاس بٹھایا ، اٹھا دیا
رسوا کیا ہے آپ نے گھر پر بلا کے یوں
ہو گا نہ اب قرار میسر کبھی مجھے
اک بات کہہ گئے ہیں وہ آنکھیں ملا کے یوں
دیکھیں گے اب نصیر قیامت کے روز ہم
جاتے ہیں کس طرف کو وہ دامن بچا کے یوں