وہ راہ وفا میں وفادا ر نہ تھے
ورنہ کب ھم ان کے طلب گار نہ تھے
ر ہے ہم بھی اس راہ الفت پر رواں
کہ جس راہ کوئ مدد گار نہ تھے
کمی اپنے ہی جنوں میں تھی شاید
ورنہ رستے تو اتنے خار دار نہ تھے
ملی ھے ہمیں یوں شچائی کی سزا
ھمارے سوا کوئی سوئے دار نہ تھے
دل بے قرار پہ تو تھا ضبط بہت
مگر گر یہ پہ یہ اختیار نہ تھے
ملے ھیں وہ ستم محبت میں ھمیں
کہ جس کے کبھی ہم خطا وار نہ تھے
وقت مند مل کر ہی د یتا انہیں
وہ گھا ؤ مگر زخم تلوار نہ تھے
ہمی نے کی اپنے لہو سے روشن
سحر کے ورنہ کوئی آثار نہ تھے
معین غم یہی ھے لہو سے میرے
کوئی دامن غیر داغ دار نہ تھے