وفا لکھی تھی ھم نے اور قاصد نے جفا لکھدی
جواب خط میں ظالم نے ھماری ھی خطا لکھدی
ستم اس پر کہ منصف بھی اسیر زلف تھا ان کا
ھمارے معافی نامے پر خموشی کی سزا لکھدی
سوال اپنا تھا لب کھولوں جواب ان تھا مت بولو
کہانی مختص سی تھی بنا کر کیا سے کیا لکھدی
ضیافت میں حسینوں کی گرا واعظ جو غش کھا کر
طبیب عشق نے دو گھونٹ بطور دوا لکھدی
میرا دل چیر کر پلکیں گرا لیں اس ستمگر نے
قتل تھا پر رقیبوں نے حسن کی اک ادا لکھ دی
چلے سج دھج کےتھےاہل جنوں سارے سوے مقتل
خوشی کی انتہا تھی یہ انھوں نے ابتدا لکھدی
تھے انگشت بدنداں سب ہی اپنے بھی پراے بھی
کہ روداد ستم ان کی زریں نے برملا لکھدی