وفا کی آگ میں جلتا رہوں گا یہ تمنا ہے
گلہ شکوہ کبھی بھی نہ کروں گا یہ تمنا ہے
کبھی دیکھو یہ پروانے حضورِ شمع مٹتے ہیں
اُسی نادانی سے میں بھی مٹوں گا یہ تمنا ہے
لگی تو ایسی ہے جس کا پتہ اوروں کو کیسے ہو
میں تو بس ضبط کا ہی درس دوں گا یہ تمنا ہے
مرے دل کی کوئی حسرت بھلا دینا نہیں آساں
وہ مستحضر ہی کرتا میں پھروں گا یہ تمنا ہے
کوئی نہ سنگ ہے یہ دل تو پھر کوئی ستائے کیوں
میں تو اشکوں سے ہی دامَن بھروں گا یہ تمنا ہے
دکھاؤں داغ حسرت کے تو ہمت ہی نہیں ہوتی
کسی کو نہ سناؤں درد پنہاں یہ تمنا ہے
کوئی آساں نہیں دل میں کبھی کوئی سما جائے
اثر کو اس سے ہی واقِف کروں گا یہ تمنا ہے