وفا کے بدلے وفا کرتے نہیں
اِک پل کو سکون عطا کرتے نہیں
دل توڑتے ہیں آئے دن شیشے کی طرح
حسین بارہا کہتے ہیں ہم گناہ کرتے نہیں
سوچ سمجھ کے کہنا حُسن کو خدا یارا
یہ رحم بن کے بالکل خدا کرتے نہیں
اِن کی عادت ہے گلشن ویران کرنا
یہ صحرہ کو ہر گز دریا کرتے نہیں
بنا مانگے یہ جام پِلاتے ہیں ساقی
مانگے تو پانی بھی عطا ذرا کرتے نہیں
چُھپا لیتے ہیں یہ چہرہ نقاب سے نہال
شرارت کرتے ہیں نظروں سے، عیاہ کرتے نہیں