وفا کے خیال کو اگر دل سے نکال دیا ہوتا
کبھی آنکھوں میں آنسوؤں نے جنم نہ لیا ہوتا
رواں کارواں بن چراغاں ہے جستجو کس کی
راستے میں کسی اجنبی سے ہی ذکر کیا ہوتا
بکھرے ہوتے نہ اک اُجڑے ہوئے آشیاں کی طرح
مکاں اپنی آرزو کا اگر اونچا تعمیر نہ کیا ہوتا
تمنا کر کے گلوں کی شہر یار کی رعنائی کے لئے
اپنے ہاتھوں کو زخموں سے لبریز نہ کیا ہوتا
نہ کر کچھ بیاں خبر دے نہ اپنے حال کی زمانے کو
آتا نہ یہ سماں اگر بجھا قسمت کا دیا نہ ہوتا