تیرے لہجے میں محبت کا اثر میں دیکھوں
آنکھیں تیری ھوں انسے مگر میں دیکھوں
خوف آتا ھے کہ اب انجام سفر کیا ھو گا
ہر اک دریا میں بے رحم بھنور میں دیکھوں
پھر اسی شور میں جنگل کی طرف چل نکلے
اجڑے موسم میں ہر اک زخمی شجر میں دیکھوں
تھک کر پہنچا ھوں ترے در پہ مگر تو نہ ملا
راہ دشوار پہ اک اور سفر میں دیکھوں
میرے شعروں میں جو بیباکی سی نظر آتی ھے
لرزش ھے قلم میں اک خوف کا نگر میں دیکھوں
نام لکھتے ہیں مٹاتے ہیں بناتے ہیں چہرے
وقت کے کینوس پہ اپنی انگلیوں کے ہنر میں دیکھوں