وقت دعا جو ہاتھ اٹھا کر گرا دئیے
سر کش ہوا نے مید کے دیے بجھا دئیے
صد شکر اس سحرِ نو خیز کا جس نے
صدیوں کی تیرگی کے قصے مٹا دئیے
واہ رے محبت تیرے جوہر بے مثال
چراغِ آرزوئے سحر پھر سے جلا دئیے
شمعِ فیروزاں کا کیا دوش ہے اس میں
پروانے نے اگر خود ہی پر جلا دئیے
بس بھی کر اے ساقی بہت ہو گیا
ایک جام کہہ کر کتنے پلا دئیے
کوئی راہِ سخن تم بھی نکالو مزمل
ہونٹوں پہ کیوں یہ اپنے قفل لگا دئیے