وگر نہ ہم رفیق سفر ہی تو تھے
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Hustonمنزل کی جستجو میں ہم بھٹکے مسافر ہی تو تھے
اک سد ہی تھی درمیاں وگرنہ ہم رفیق سفر ہی توتھے
اے اجنبی ہمسفر کیا وہ ملاقات تم بھول گۓ ؟
ستاروں کی سنگت میں کچھ دور ہم ساتھ چلےتھے
ہر سوطلسم چھا رہا تھا یوں لاج ہم کو آ رہی تھی
دور فلک پر شام و شب ہم آغوش ہو رہے تھے
یاد ہے وہ چاند کا شرمانا بد لیوں کی اوٹ سے
دور کہیں کچھ دیۓ جلےاور کچھ بجھے بھی تھے
رکا تھا کارواں شب بھر تاریک و خاموش فضا تھی
خوف تنہائ سے ہم سہمے کچھ جھجکے بھی تھے
سوکھے پتوں کی آہٹ پر یوں ہم لرزے بھی تھے
نیند سے بوجھل آنکھیں اورکچھ رت جگے بھی تھے
ما نا ہم اجنبی سہی تن کے سانولے پرمن کے اجلے
وہ سفر ہم بھولے نہیں گو تنہا ہم اور ہمسفر بھی تھے
آمد کرن سے ہوئی حوصلہ افزائی تو ہم یوں مسکراديۓ
پھر کبھی ملنے کی آس لیۓ سلامِ رُخصت ہوے تھے
بعدِ مدت اب ملے ہو تو منسوب کسی اور نام سے
یہ فریب ہی تو ہے گر کہوں ہم کبھی ملےہی نہ تھے
منزل کی جستجو میں ہم بھٹکے مسافر ہی تو تھے
اک سد ہی تھی درمیاں وگر نہ ہم رفیق سفرہی تو تھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






