درد لا دوا کو دوا چاہیے
مجھے عشق کی انتہا چاہیے
اے دلبر خوئے دل لگی چھوڑ دے
جو دل کو لگے وہ ادا چاہیے
جو خود کو خودی کے مقابل کرے
وہ جذبہ وہ ہی التجا چاہیے
دل میں نہاں جو نظر میں عیاں ہے
وہ چاہت وہ ہی مدعا چاہیے
صبر و سقر کے زمانے گئے
کہ اب امتحاں کا صلہ چاہیے
نگاہ اٹھتے ہی جھولی بھرنے لگے
مجھے وہ مکمل دعا چاہیے
عظمیٰ جو دلوں سے مٹی جاتی ہے
وہ الفت، محبت، وفا چاہیے