ہواؤں ! کہنا اُسے اِک بار تو دے جائے
ترسی ہوئی نگاہوں کو دیدار تو دے جائے
کتنے سال گزر گئے میرے بے قراریوں میں
صرف تھوڑا سا تھوڑا سا قرار تو دے جائے
وہ اَنا پرست تو اَنا میں رہے شوق سے
مگر بے چارے دل کا دلدار تو دے جائے
اپنی فرقتیں ، اپنی جفائیں لے جائے آ کے
مگر جو میرا لے گیا پیار تو دے جائے
اُسے کہنا دفنا جائے آ کے حسرتوں کے جنازے
میتِ ارمان کے گلے کوئی ہار تو دے جائے
آئے اپنی مرضی سے جب جی چاہے اُسکا
مگر آنے کے واپس کچھ آثار تو دے جائے
نہال کہنا اُسے لے آئے ہو غلطی سے ساتھ اپنے
اُداس ہے میرا گلشن میری بہار تو دے جائے