اس کی شوخ جبیں پہ زلفوں کا پہرا ہوگا
اور چہرے پہ میرے عشق کا جلوہ ہوگا
دیکھ کرموسم کے حسیں ناز یوں لگتا ہے
اس نے کچھ دیر مسکرا کے مجھے سوچاہوگا
فلک پہ جو دھنک رنگ ہیں بکھرے
یہ اسکی جھیل سی آنکھوں کا اشارہ ہوگا
نکھرے نکھرے سے بادل یہ بتاتے ہیں
وہ ابرِ بیتاب میرا ، آج بھی برسا ہوگا
گل و گلشن ہوے جاتے ہیں بارونق
اُس نے درو بام سے باہر زرہ دیکھا ہوگا
چھوڑا تھا جسے تم نے رضا بیچ رستے میں
وہ آج بھی شام ڈھلے وہیں بیٹھا ہوگا