وہ اپنی آنکھوں میں دولت کا خواب رکھتے ہیں
ہم اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب رکھتے ہیں
اپنے دل کی کتاب میں اور تو کچھ بھی نہیں
مگر تیری یادوں کا اک باب رکھتے ہیں
اس کی محبت میں کیا کھویا کیا پایا
ایسی باتوں کا کب حساب رکھتے ہیں
ہمارے دشمنوں کا تو کوئی معیار نہیں
مگر دوست سبھی لاجواب رکھتے ہیں
ہم تو آپ کے پرانے چاہنے والے ہیں
اصغر سے عداوت کیوں جناب رکھتے ہیں