وہ ایک شخص جو مجھے عزیز تھا زندگی کی طرح
ہجر میں اُس کے حالت ہے اب دیوانوں کی طرح
وہ جو بچھڑا تو پلٹا نہ بے رحم وقت کی طرح
مانگا تھا جسے ہر پل میں نے دُعاؤں کی طرح
سایہ فگن تھا مگر چھوڑ گیا تپتے صحرا میں
تپش چشم تھی جسکی شُعلہ اُلفت کی طرح
اُسکی دلخیز مسکراہٹ، لب و لہجہ تھا بہار میں پھول کی طرح
تشنگی ہے شب فراق میں ادھورے ماہتاب کی طرح
ہمیں تو لے ڈُوبی اُس کو پانے کی تمنا “فائز“
اسی لیے تو حال دل ہے ابتر شاعروں کی طرح