تمہارے دل کے تار کو اگر چھوا ہی نہیں
تو سمجھ لو میں ابھی زندگی جیا ہی نہیں
ہزار بار لکیروں سے الجھنا چاہا
میری تقدیر میں شاید تیری وفا ہی نہیں
تم سے بچھڑا تو یہی بھید آشکار ہوا
جینے کا اور بہانہ تو پاس تھا ہی نہیں
کہاں کو جاؤں ۔ کہاں پر سکوں تلاش کروں
تیرے سوا تو کسی اور کو سوچا ہی نہیں
میں اپنی سوچ کی تعبیر لے کے کیا کرتا
تمہاری دھڑکنوں نے خواب گر بنا ہی نہیں
زندگی بیتی اسی لفظ کے مداروں میں
وہ ایک لفظ جو تم سے کبھی کہا ہی نہیں