اک ان چھوئی کومل سی لڑکی
میرے حسین خوابوں کا ثمر تھی
میرے ہر دکھ کو اپنا کہتی تھی
ہر زخم کا رفو بن جاتی تھی
زندگی کے کٹھن لمحوں میں
وہی تو میرا اک سہارا تھی
میرے ہر آنسو کو
پلکوں پر چن لیا کرتی تھی
اپنے زخموں کو چھپا کر
وہ ہنس بھی لیا کرتی تھی
کیسی عجیب لڑکی تھی
اک سربستہ راز تھی کہ پہیلی تھی
بوجھ نہ پایا کبھی
میری بے کیف بے رنگ زندگی میں
بہار کی مانند چھائی تھی
اس کے نین نہیں تارے تھے
جن میں جوت پیار کی جلتی تھی
رخسار نہیں انار تھے
جو پیار کے شعلوں سے دہکتے تھے
دلکشی و رعنائی کا
حسین پیکر و مجسم تھی
وہ مہ لخا وہ مہہ جبین
میری ہمسفر و ہمنشیں
وہ نازک اندام سی لڑکی
جانے کہاں کھوگئی
آج اپنی تنہائیوں کے ساتھ
بے چین و بے قرار رہتا ہوں
دنیا کی بے ثباتی کو دیکھتا ہوں
اور اکثر دل میں خیال کرتا ہوں
شاید وہ تھک گئی تھی
ہار گئی تھی
ہاں شاید دنیا سے ڈر گئی تھی
زمانے نے اسے رگید ڈالا تھا
اس کے دل کو توڑ ڈالا تھا
اور وہ یہ کیسے سہار سکتی تھی
آخر کو وہ اک کومل سی نازک سی لڑکی تھی ۔