وہ بندہ بزم میں مسرور بھی ہے
مری حق گوئی سے رنجور بھی ہے
مرے دل میں اُسی کا ہے ٹھکانہ
مری آنکھوں سے لیکن دور بھی ہے
دیارِ بے ہنر میں میرے فن کا
مخالف ہے مگر مجبور بھی ہے
اُسے ملنے چلے جاتے ہیں پھر بھی
وہ عشوہ باز ہے مغرور بھی ہے
وہ شاعر مر نہ جائے خلوتوں میں
وہ شاعر جو بہت مشہور بھی ہے
تجھے تنہائی میں ملنا ہے وشمہ
محبت کا یہی دستور بھی ہے