وہ بے ارادہ سہی تتلیوں میں رہتا ہے
کہ میرا دل تو میری مٹھیوں میں رہتا ہے
میں اپنے ہاتھ سے دل کا گلا دبا دوں گی
میرے خلاف یہی سازشوں میں رہتا ہے
اڑان جس کی ہمیشہ سے جارحانہ رہی
وہ آج میری طرح بے پروں میں رہتا ہے
الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میرے طاقوں میں رہتا ہے
بچا کے خود کو گزرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے
میری کتاب محبت میں اس کا ذکر نہیں
وہ خوش خیال غلط فہمیوں میں رہتا ہے