وہ تجھے بھلا بھی سکتا ہے
نظروں سے اپنی گرا بھی سکتا ہے
یوں نہ بسا لو دل میں اسے
وہ کبھی نگاہیں چرا بھی سکتا ہے
پس مژگاں جو آ کے ٹھرا ہے
کوئی طوفاں وہ قطرہ اٹھا بھی سکتا ہے
جو نقش بنایا تھا خون دل سے
یہ دل چاہے تو مٹا بھی سکتا ہے
خدا جو چاہے تو یہ نا خدا اپنا
طوفاں کو کنارا بنا بھی سکتا ہے
زیست کا فسوں بہت دلکش سہی
کوئی فرزانہ ٹھکرا بھی سکتا ہے
فاصلے بھی سمٹ جائیں گے حبیب
وہ تجھے اپنا بنا بھی سکتا ہے