وہ تصور میں تو آتا ہے چلا جاتا ہے
دھڑکنیں دل کی بڑھاتا ہے چلا جاتا ہے
ہونے لگتا ہے مجھے جب بھی تکبر کا گماں
کوئی آئینہ دکھاتا ہے چلا جاتا ہے
کوئی درویش مجھے روز سوالی بن کر
خواب غفلت سے جگاتا ہے چلا جاتا ہے
کون ہے دوست یہاں کون ہمارا دشمن
گردش وقت بتاتا ہے چلا جاتا ہے
میری تربت پہ سر شام دعاؤں کا چراغ
کوئی اشکوں سے جلاتا ہے چلا جاتا ہے
بیٹھ جاتا ہوں رہ عشق میں تھک کر تو جنوں
منزل شوق بڑھاتا ہے چلا جاتا ہے
وقت آتا ہے دبے پاؤں ہمیشہ عالمؔ
سب کی اوقات بتاتا ہے چلا جاتا ہے