وہ تصور میں جب بھی آ تا ہے
دِل کے تاروں کو چھیڑ جاتا ہے
شب کے ماتھے پہ چاند کا جھوُمر
دِل میں فتنے کییٔ جگاتا ہے
اور کچھ بھی نظر نہیں آ تا
جب نظر میں کویٔ سماتا ہے
کچھ نہ کچھ آج ہونے والا ہے
میرا وجدان یہ بتاتا ہے
عشق میں جان ہار جاۓ جو
دِل کی بازی وہ جیت جاتا ہے
ساتھ تیرے جو وقت گذرا تھا
خوں کے آ نسوُ مجھے رلاتا ہے
آ نکھ میں اشک آ گیۓ عذراؔ
جانے وہ کِس طرح ہنساتا ہے ؟