دیواریں نفرتوں کی کھڑی ہیں جو راہ میں
مسمار ہم کریں گے انہیں تیری چاہ میں
وہ تیرا ساتھ اور مہِ کامل کی چاندنی
منظر بسا ہوا ہے وہ اب تک نگاہ میں
واعظ تیرا بیان کہ لرزا گیا وجود
پر کیا کریں کہ لطف عجب ہے گناہ میں
تھک تھک گیا ہوں دشتِ مسافت کی دوڑ میں
لے لو مجھے تم اپنی محبت پناہ میں
سب ذادِ راہ لوٹ کے رسوائی دے گیا
کتنی مروتیں ہیں مرے کجکلاہ میں
بھولا نہیں ہوں تیری محبت کی رفعتیں
یادیں بچھی ہوئی ہیں ہر اک گام راہ میں
اب غرقِ اضطراب ہے تیرے فراق سے
وہ جس کا تذکرہ تھا بہت مہر و ماہ میں
گزرا ہے سارا سال اس امید پر نثار
شاید وہ ملنے آئے دسمبر کے ماہ میں